Urdu – Wifāq ul Ulāma (SA) https://wifaq.org.za ASSOCIATION OF SOUTH AFRICAN 'ULAMA Wed, 24 Aug 2022 06:37:16 +0000 en-US hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.3.1 https://wifaq.org.za/wp-content/uploads/2020/06/cropped-Square-Logo-WA0005-32x32.jpg Urdu – Wifāq ul Ulāma (SA) https://wifaq.org.za 32 32 اصحاب رسول کی شان میں گستاخی ناقابل معافی جرم – Urdu Translation of “Can A Muslim Ever…” https://wifaq.org.za/?p=18661 Mon, 22 Aug 2022 13:27:06 +0000 https://wifaq.org.za/?p=18661 اصحاب رسول کی شان میں گستاخی ناقابل معافی جرم

عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔  (سنن الترمذي: 3862)

اس خبر سے ہم شدید غم و غصہ میں ہیں کہ مغربی کیپ میں افریقی نیشنل کانگریس کے ایک ممتاز رکن خالد سید نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی۔ ایک ریکارڈنگ کے مطابق، اس نے بہت بدتمیزی سے خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی، انہیں منافق کہا اور یہ الزام لگایا کہ وہ سبھی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے غاصب ہیں۔

ہم اس گستاخی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کے جواز کو مان لینے سے ہی بندہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اہل السنہ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی عزت و ناموس پر دست درازی کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے۔

یہ وہ اصحاب رسول ہیں جن کے دخول جنت کی ضمانت خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے لی ہے۔ تو اب بتاؤ کس کی مجال ہے کہ انہیں اس رتبہ  بلند سے محروم رکھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، صحابہ کرام نے سیدنا ابو بکر کو خلیفہ چنا تھا۔ اور یہ انتخاب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور آپ کے حکم کے مطابق تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی غیر موجودگی میں حج کا امیر منتخب فرمایا،  اسی طرح غزوہ تبوک کے وقت بھی آپ کو علَم تھمایا۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ عنقریب ہی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ فوجی امور کو سنبھالیں گے۔

ایک مرتبہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ کچھ وقت بعد آؤ۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو یہاں نہ پاؤں یعنی اگر میں یہاں آؤں اور آپ کی وفات ہو جائے تو پھر کدھر جاؤں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے یہاں نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی جانا!

]]>
اصحاب رسول کی شان میں گستاخی ناقابل معافی جرم

عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔  (سنن الترمذي: 3862)

اس خبر سے ہم شدید غم و غصہ میں ہیں کہ مغربی کیپ میں افریقی نیشنل کانگریس کے ایک ممتاز رکن خالد سید نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی۔ ایک ریکارڈنگ کے مطابق، اس نے بہت بدتمیزی سے خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی، انہیں منافق کہا اور یہ الزام لگایا کہ وہ سبھی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے غاصب ہیں۔

ہم اس گستاخی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کے جواز کو مان لینے سے ہی بندہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اہل السنہ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی عزت و ناموس پر دست درازی کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے۔

یہ وہ اصحاب رسول ہیں جن کے دخول جنت کی ضمانت خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے لی ہے۔ تو اب بتاؤ کس کی مجال ہے کہ انہیں اس رتبہ  بلند سے محروم رکھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، صحابہ کرام نے سیدنا ابو بکر کو خلیفہ چنا تھا۔ اور یہ انتخاب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور آپ کے حکم کے مطابق تھا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی غیر موجودگی میں حج کا امیر منتخب فرمایا،  اسی طرح غزوہ تبوک کے وقت بھی آپ کو علَم تھمایا۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ عنقریب ہی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ فوجی امور کو سنبھالیں گے۔

ایک مرتبہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ کچھ وقت بعد آؤ۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو یہاں نہ پاؤں یعنی اگر میں یہاں آؤں اور آپ کی وفات ہو جائے تو پھر کدھر جاؤں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے یہاں نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی جانا!

]]>
مسجد: امید کی کرن خطرے میں – URDU TRANSLATION OF “Masaajid: Beacons of Hope under Threat” https://wifaq.org.za/?p=17908 Mon, 07 Feb 2022 13:40:50 +0000 https://wifaq.org.za/?p=17908 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری جگہیں مسجدیں ہیں۔ [مسلم 671] مسجد اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو سب سے پہلے آپ نے جو کام شروع فرمایا وہ مسجد کا قیام تھا۔ پہلے قبا میں اور پھر مدینہ منورہ میں۔ اس کے بعد ہر علاقے میں جہاں مسلمان جاتے تھے، چھوٹی بڑی مسجدیں بنائی گئیں۔
مسلم معاشرہ مسجد کی سرگرمیوں کے ارد گرد مرکوز تھا۔ کوفہ شہر کی منصوبہ بندی کرتے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ شہر کی ہر گلی جامع مسجد تک لے جائے۔ (تاریخ ملت 1/239)
دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مسجد کے قریب رہنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مسلمان بچے مسجد میں آتے جاتے بڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی اپنی مقامی مسجد کے ساتھ وابستگی کی یادیں بڑی دل چسپ ہوتی ہیں۔اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مسجد امت مسلمہ کی رگ جان ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسجدیں آباد رہیں وہ محفوظ رہیں۔ مسلمانوں نے جب بھی مسجد کے حقوق میں کوتاہی کی تو یہ حق ان سے چھین لیا گیا۔ اسپین، ازبکستان اور روس میں مساجد کو گرجا گھروں، قحبہ خانوں اور اصطبلوں میں تبدیل کرنے کے روح فرسا واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آفت سے محفوظ رکھے!…

]]>
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پیاری جگہیں مسجدیں ہیں۔ [مسلم 671] مسجد اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو سب سے پہلے آپ نے جو کام شروع فرمایا وہ مسجد کا قیام تھا۔ پہلے قبا میں اور پھر مدینہ منورہ میں۔ اس کے بعد ہر علاقے میں جہاں مسلمان جاتے تھے، چھوٹی بڑی مسجدیں بنائی گئیں۔
مسلم معاشرہ مسجد کی سرگرمیوں کے ارد گرد مرکوز تھا۔ کوفہ شہر کی منصوبہ بندی کرتے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ شہر کی ہر گلی جامع مسجد تک لے جائے۔ (تاریخ ملت 1/239)
دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مسجد کے قریب رہنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ مسلمان بچے مسجد میں آتے جاتے بڑے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی اپنی مقامی مسجد کے ساتھ وابستگی کی یادیں بڑی دل چسپ ہوتی ہیں۔اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مسجد امت مسلمہ کی رگ جان ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسجدیں آباد رہیں وہ محفوظ رہیں۔ مسلمانوں نے جب بھی مسجد کے حقوق میں کوتاہی کی تو یہ حق ان سے چھین لیا گیا۔ اسپین، ازبکستان اور روس میں مساجد کو گرجا گھروں، قحبہ خانوں اور اصطبلوں میں تبدیل کرنے کے روح فرسا واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آفت سے محفوظ رکھے!…

]]>
اولاد: ایک بڑی امانت – URDU TRANSLATION OF “CHILDREN – A GREAT TRUST” https://wifaq.org.za/?p=17851 Tue, 25 Jan 2022 13:49:24 +0000 https://wifaq.org.za/?p=17851 بسم اللہ الرحمن الرحیم

اولاد: ایک بڑی امانت

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔(۶۶-۶)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ (بخاری ۱۳۸۵)
بچے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہیں۔ ان کے ایمان و دین کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
زیادہ ترا سکولوں کا ماحول بچے کے ایمان و دین کے لیے نقصان دہ ہے۔ “اسکولنگ” کے نام پر شدید غیر اسلامی تعلیمات مشہور ہیں۔
ہر والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کو ترجیح دے۔
معصوم اور بے گناہ بچوں کو ایسے حالات سے دو چار نہیں کرنا چاہئے جن میں ایمان اور عفت کے جوہر کا سودا کیا جا رہا ہو۔
ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن بچے اپنے والدین کے خلاف مدعی بن جائیں۔
رزق رسانی کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ کوئی ذی روح اپنا مقررہ حصہ حاصل کیے بغیر نہیں مر سکتا۔ غربت کا خوف ایک ایسا ذریعہ ہے جسے شیطان ہمیں گناہ میں ملوث کرنے اور ہمارے ایمان کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرفت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔)قرآن ۲۔۲۶۸(
بنا بریں اپنے بچوں کو غلط ماحول میں مبتلا ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو، والدین کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ہوم اسکول کرائیں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے جو اس سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کو غلط ماحول سے بچانے کے ساتھ ساتھ، انہیں صحیح عقائد، دین کی ضروری باتیں اور اسلامی آداب سکھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
بچے کو مقامی مکتب میں بھیجتے وقت، والدین کو اپنے بچے کی ترقی میں گہری دلچسپی لینی چاہیے۔
مکتب بچوں کی اسلامی تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کو قابل اعتماد اور پرہیزگار اساتذہ سے پڑھایا جائے، ورنہ حاصل شدہ علم معلومات کی حد تک رہے گا، اس میں کوئی تاثیر نہ ہوگی۔
بچے کو مکتب سے محروم کرنے یا مکتب کی تعلیم سے اٹھانے کے لیے فضول عذر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس کہ ہمارے بچوں کو زندگی کی دنیاوی عصری مہارتوں کو سیکھنے کی اہمیت کو تو سمجھایا جاتا ہے۔، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو سیکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے جو یقیناً دونوں جہانوں میں ابدی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی والدین جو اپنے بچے کو کبھی بھی مادی تعلیم ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتے جب ان کا کوئی بچہ مکتب چھوڑنا چاہتا ہے تو خوشی سے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس سے اس کے ما تحتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ (بخاری ۸۹۳)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان امانتوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس نے ہمارے سپرد کی ہیں اور ہمارے ایمان و دین اور ہماری نسلوں کی قیامت تک حفاظت فرمائے۔ آمین
جمادی الآخرۃ 1443 / جنوری 2022

 

For PDF, click here:

 

 

DOWNLOAD

 …

]]>
بسم اللہ الرحمن الرحیم

اولاد: ایک بڑی امانت

اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، اس پر سخت کڑے مزاج کے فرشتے مقرر ہیں، جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔(۶۶-۶)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔ (بخاری ۱۳۸۵)
بچے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک امانت ہیں۔ ان کے ایمان و دین کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
زیادہ ترا سکولوں کا ماحول بچے کے ایمان و دین کے لیے نقصان دہ ہے۔ “اسکولنگ” کے نام پر شدید غیر اسلامی تعلیمات مشہور ہیں۔
ہر والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کو ترجیح دے۔
معصوم اور بے گناہ بچوں کو ایسے حالات سے دو چار نہیں کرنا چاہئے جن میں ایمان اور عفت کے جوہر کا سودا کیا جا رہا ہو۔
ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن بچے اپنے والدین کے خلاف مدعی بن جائیں۔
رزق رسانی کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔ کوئی ذی روح اپنا مقررہ حصہ حاصل کیے بغیر نہیں مر سکتا۔ غربت کا خوف ایک ایسا ذریعہ ہے جسے شیطان ہمیں گناہ میں ملوث کرنے اور ہمارے ایمان کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے: شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرفت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔)قرآن ۲۔۲۶۸(
بنا بریں اپنے بچوں کو غلط ماحول میں مبتلا ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ جہاں تک ممکن ہو، والدین کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنے بچوں کو ہوم اسکول کرائیں۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے جو اس سے مدد کے خواہاں ہوتے ہیں۔
اپنے بچوں کو غلط ماحول سے بچانے کے ساتھ ساتھ، انہیں صحیح عقائد، دین کی ضروری باتیں اور اسلامی آداب سکھانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
بچے کو مقامی مکتب میں بھیجتے وقت، والدین کو اپنے بچے کی ترقی میں گہری دلچسپی لینی چاہیے۔
مکتب بچوں کی اسلامی تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کو قابل اعتماد اور پرہیزگار اساتذہ سے پڑھایا جائے، ورنہ حاصل شدہ علم معلومات کی حد تک رہے گا، اس میں کوئی تاثیر نہ ہوگی۔
بچے کو مکتب سے محروم کرنے یا مکتب کی تعلیم سے اٹھانے کے لیے فضول عذر پیش نہیں کرنا چاہیے۔ افسوس کہ ہمارے بچوں کو زندگی کی دنیاوی عصری مہارتوں کو سیکھنے کی اہمیت کو تو سمجھایا جاتا ہے۔، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو سیکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے جو یقیناً دونوں جہانوں میں ابدی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہی والدین جو اپنے بچے کو کبھی بھی مادی تعلیم ترک کرنے کی اجازت نہیں دیتے جب ان کا کوئی بچہ مکتب چھوڑنا چاہتا ہے تو خوشی سے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس سے اس کے ما تحتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ (بخاری ۸۹۳)
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان امانتوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس نے ہمارے سپرد کی ہیں اور ہمارے ایمان و دین اور ہماری نسلوں کی قیامت تک حفاظت فرمائے۔ آمین
جمادی الآخرۃ 1443 / جنوری 2022

 

For PDF, click here:

 

 

DOWNLOAD

 …

]]>