اصحاب رسول کی شان میں گستاخی ناقابل معافی جرم
عبداللہ بن مغفل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی گرفت میں لے لے۔ (سنن الترمذي: 3862)
اس خبر سے ہم شدید غم و غصہ میں ہیں کہ مغربی کیپ میں افریقی نیشنل کانگریس کے ایک ممتاز رکن خالد سید نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی۔ ایک ریکارڈنگ کے مطابق، اس نے بہت بدتمیزی سے خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کی، انہیں منافق کہا اور یہ الزام لگایا کہ وہ سبھی سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے غاصب ہیں۔
ہم اس گستاخی کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی گستاخی کے جواز کو مان لینے سے ہی بندہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اہل السنہ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی عزت و ناموس پر دست درازی کرنا اور ان کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے۔
یہ وہ اصحاب رسول ہیں جن کے دخول جنت کی ضمانت خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے لی ہے۔ تو اب بتاؤ کس کی مجال ہے کہ انہیں اس رتبہ بلند سے محروم رکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، صحابہ کرام نے سیدنا ابو بکر کو خلیفہ چنا تھا۔ اور یہ انتخاب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور آپ کے حکم کے مطابق تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی غیر موجودگی میں حج کا امیر منتخب فرمایا، اسی طرح غزوہ تبوک کے وقت بھی آپ کو علَم تھمایا۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ عنقریب ہی سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ فوجی امور کو سنبھالیں گے۔
ایک مرتبہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ کچھ وقت بعد آؤ۔ اس نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو یہاں نہ پاؤں یعنی اگر میں یہاں آؤں اور آپ کی وفات ہو جائے تو پھر کدھر جاؤں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے یہاں نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس چلی جانا!
مرض وفات کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب سیدنا ابو بکر کی طرف گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی حیات ہی میں مسجد نبوی کا مصلی آپ کے سپرد کر کے مسلمانوں کا امام بنایا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات مرض الوفات میں مروی ہیں، ان میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اور مسلمانوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور کو خلیفہ متعین نہیں فرمایا۔
یہ بات واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو منافق جیسے الفاظ سے متصف کرنا یا انہیں منافق کہنا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ ہے، ذات نبوت کو چیلنج ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے اور پھر اصحاب رسول کی شان میں ایسی قبیح گستاخی زبانی جمع خرچ، لغو اور بے فائدہ ہے۔
تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک عظیم لیڈر تھے جنہیں مسلمانوں نے خود منتخب کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی اور شریعت کی پاسداری کی وجہ سے دین اسلام اپنی حقیقی شکل میں محفوظ رہا۔
اسی طرح سیدنا عمر اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کی خلافت بھی صحابہ کرام کے متفقہ فیصلے سے وجود میں آئی۔
یاد رکھو کہ ان انفاس قدسیہ کی شان میں باطل دعوے اور گستاخی سے ان کے مرتبے میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آنے والی ہے کیوں کہ قرآن خود جگہ جگہ صحابہ کی مدح سرائی کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان، نیکوکاری اور راہ خدا میں ان کے جہاد کی بار بار تعریف کی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خود یہ اعلان کردیا ہے کہ میں ان سے راضی ہوں۔ اس لیے ان کا دفاع کرنا اور حق کا اظہار کرنا ہمارے لیے شرف کی بات ہے۔
تذلیل اصحاب رسول شیعوں کا شیوہ ہے اور ان کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی حقیقت کیا ہے۔ان انفاس قدسیہ کی شان میں گستاخی اور ان پر تہمت لگانے کا یہ عمل اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ بد اخلاق ہیں۔
اس ملک اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے بنیادی عقائد کے خلاف یہ بیان بازی خوفناک ہے اور جو بھی اس بیان بازی کو قبول کرتا ہے یا اس کے ساتھ نرمی و ہمدردی کا معاملہ کرتا ہے وہ در اصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خیانت کرتا ہےاور اس خیانت کا علی الاعلان مظاہرہ کرتا ہے۔
مزید برآں، یہ بیانات ان لوگوں کے لیے واضح ثبوت ہیں جو شیعوں کے ساتھ اتحاد کی وکالت کرتے ہیں۔ امت مسلمہ ان بیرونی لوگوں کے ساتھ کبھی بھی اتحاد کی بات نہیں کرسکتی جو شعائر اسلام کی توہین کرتے ہیں۔ اصحاب رسول کی محبت و عظمت اور ان کا احترام مسلمانوں کے قلب و جگر میں پیوست ہے۔ جب ان شیعوں کے اتہام اور ایذاء رسانی سے اصحاب رسول محفوظ نہیں ہیں تو ہم کیسے مان لیں کہ یہ منافقین ہمارے ساتھ حسن سلوک اور پیار و محبت کا معاملہ کریں گے۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ایمان ہی ان انفاس قدسیہ پر قائم ہے۔
اے اللہ تعالیٰ ان اصحاب رسول کی شرف و عزت میں مزید اضافہ کراور ان کی حقیقی محبت ہمارے دلوں میں پیوست کر اور ہمیں توفیق بخش دے کہ ہم ان کے دفاع کے متعلق اپنے فرض سے کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔ آمین!
اخیر میں یہ بات واضح لفظوں میں کہنا ضروری سمجھے ہیں کہ صحابہ کرام کے بارے میں اس طرح کے جھوٹے دعوے اور گستاخیاں ناقابل قبول ہیں۔محض معافی کافی نہیں ہے، بلکہ اس طرح کی حرکت کرنے والے اور ان کے حمایتی اور معاونین کے لیے معافی کے ساتھ ساتھ صحابہ کے علم وفضل بلکہ ان کی مدح و ثنا کا بھی علی الاعلان اظہار کرنا ضروری ہے۔ اور جس طرح گستاخی کو شد ومد کے ساتھ پھیلایا گیا تھا اسی طرح ان کی علم وفضل اور مدح و ثنا کو پھیلانا ضروری ہے۔یہ دین کا ایک بدیہی امر ہے۔
اسی طرح محض معافی کافی نہیں ہے بلکہ صحابہ کے مقام و مرتبہ کا اعتراف کرنا اور ترتیب خلافت کا بھی ماننا ضروری ہے ۔ ترتیب خلافت اس طرح ہے: خلیفہ اول ابو بکر رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ، خلیفہ سوم عثمان رضی اللہ عنہ اور خلیفہ چہارم علی رضی اللہ عنہ۔
محرم الحرام ۱۴۴۴/ ۱۱، اگست ۲۰۲۲
To download the PDF, click: